طالوت
خدائے قادر و عادل!
یہ عہدِ نو مزین ہے یقیناً علم و فن سے
*
مگر در اصل یہ عہدِ جہالت ہے
ترقی یافتہ حسنِ تمدن جل رہا ہے
*
اور عریاں ہو رہا ہے پیکرِ تہذیبِ دوراں
دھماکوں سے مسلط خوف کی ہر سو فضا ہے
گلا انسانیت کا گھُٹ رہا ہے
*
علوم و آگہی بے جان ہو کر رہ گئے ہیں
ہوائے مادیت چل رہی ہے تیز رفتاری سے دنیا میں
رخ روحانیت مرجھا رہا ہے
*
غرور و سرکشی کا رقص پیہم ہو رہا ہے
حقوق انساں کے چھینے جا رہے ہیں
فرائض رو رہے ہیں
ستم جالوت کا اب انتہا پر آ چکا ہے
*
خدائے قادر و عادل!
پھر کسی مفلس کے مسکن سے
کوئی طالوت کر ظاہر
***