2%

آیت ۴۱

( وَقَالَ ارْكَبُواْ فِيهَا بِسْمِ اللّهِ مَجْرَاهَا وَمُرْسَاهَا إِنَّ رَبِّي لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ )

نوح نے كہا كہ اب تم سب كشتى ميں سوار ہوجائو خدا كے نام كے سہارے اس كا بہائو بھى ہے اور ٹھہرائو بھى اوربيشك ميرا پروردگار بڑا بخشنے والا مہربان ہے (۴۱)

۱_ حضرت نوحعليه‌السلام نے طوفان كے شروع ہونے اور حركت كرنے كے ابتدائي مراحل انجام دينے كے بعداپنے پيروكاروں اور گھر والوں سے چاہا كہ وہ كشتى پر سوار ہوجائيں _و قال اركبوا فيه

ايسا لگتا ہےكہ جملہ '' قال اركبوا ...'' كا كچھ ايسے جملات پر عطف ہے جو مقدر ہيں اور جملات كا اس نقل قصہ كے مقصود سے مربوط نہ ہونے كى وجہ سے ان كو بيان نہيں كيا گيا _ يعنى :''قلنا احمل فيها ففعل كذا و كذا و قال اركبوا فيها لہذا مذكورہ مطلب ميں (حركت كرنے كے ابتدائي مراحل كے انجام) كو بيان كيا گيا ہے_

۲_ حضرت نوح(ع) كى كشتى ،نام خدا كے ساتھ حركت اور نام خدا ہى سے ٹھہرتى تھي_بسم الله مجرى ها و مرسى ه

لفظ '' مجرى '' اور '' مرسى '' مصدر ميمى ہيں اور كلام ميں مبتداء واقع ہوئے ہيں _ اسى ترتيب كے ساتھ لفظ '' جرى '' كا معنى ( حركت كرنا ) اور '' ارساء '' كا معنى ( حركت سے روك دينا ہے) بسم الله ميں جوباء ہے وہ استعانت ومدد كے ليے ہے_ اور ''بسم الله '' لفظ ''مجرى ہا'' كے ليے خبر ہے_ اس صورت ميں جملہ '' بسم الله مجرى ہا ...'' كايوں معنى ہوگا كہ (حضرت نوحعليه‌السلام نے فرمايا ) اس كشتى كا چلنا اور اس كشتى كا چلنے سے ركنا بھى ، خدا كے نام سے متحقق ہوتا ہے_

۳_ خداوند متعال غفور ( بہت بخشنے والا) اور رحيم (مہربان ) ہے_ان ربى لغفور رحيم

۴_ حضرت نوحعليه‌السلام كى اپنے پيروكاروں كو تاكيد تھى كہ طوفان كے حادثے سے نجات كے ليے انہوں نے خدا كى مغفرت اور رحمت پر بھروسہ كرنا ہے_قال اركبوا فيها ان ربى لغفور رحيم

حضرت نوحعليه‌السلام كاكشتى پر سوار ہونے كے حكم كے بعد خداوند متعال كى مغفرت اور رحمت كى ياد آورى كرنے كا مقصد اس حقيقت كو بيان كرنا تھا كہ كشتى تو فقط ايك وسيلہ ہے در حقيقتنجات مہيا كرنے كا سبب مغفرت و رحمت الہى كا شامل حال ہونا ہے_