آیت ۱۵
( مَن كَانَ يُرِيدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيهَا لاَ يُبْخَسُونَ )
جو شخص زندگانى دنيا اور اس كى زينت ہى چاہتا ہے ہم اسكے اعمال كا پورا پورا حساب يہيں كرديتے ہيں اور كسى طرح كى كمى نہيں كرتے ہيں (۱۵)
۱ _ دنيا كى نعمتيں اور اس كى زينت كو حاصل كرنے كيلئے كوشش كرنا اسى دنيا ميں نتيجہ بخش ہے اور اس كا فائدہ بغير كسى كمى كے انسان كو پہنچتاہے_من كان يريد الحياة الدنيا و زينتها نؤف اليهم اعمالهم فيها و هم فيها لا يبخسون
توفية ( نوف) كا مصدر ہے _جو مكمل طور سے ادا كرنے كے معنى ميں ہے _ (اعمال ) سے مراد اعمال كا نتيجہ اور اسكا ثمرہ ہے_(بخس ) نقص كے معنى ميں ہے -(لا يبخسون) كا معنى يہ ہے كہ اس كے حق كى ادائيگى ميں كوئي كمى واقع نہ ہوگي_
۲_ دنياوى نعمتوں كے حصول كے ليے ضرورى نہيں ہے_ كہ انسان خداوند متعال كى نسبت صحيح عقيدہ ركھتا ہو اور دين حق كو صحيح طريقے پر قبول كرتاہو_من يريد الحىوة الدنيا و زينتها نوف اليهم اعمالهم
گذشتہ آيت اور بعد كى آيت سے يہى معلوم ہوتاہے كہ ( من كان ...) كا مصداق كفار اور مشركين ہيں _
۳_ دنياوى نعمتوں كا حصول انسان كى اپنى كوششوں پرمنحصر ہے_ نہ وہ اميديں جو وہ اميديں تہ زن اميدوں پر جو وہ اپنے دل ميں ليے ہوئے ہيں _من كان يريد نوفّ اليهم ا عمالهم
قرآن نے يہ نہيں كہا ( كہ ہر كوئي جو دنيا كى تمنا ركھتاہے _ اسكو ہم عطا كريں گے ) بلكہ لفظ (اعمالہم) صراحت سے يہ بتاتاہے كہ خداوند دنيا كے طالب كو اسكى اپنى كوشش كا ثمرہ عطا كرتاہے_ اس سے معلوم ہوتاہے كہ دنيا كے حصول كے ليے جو چيز كار ساز ہے وہ اس كى اپنى كوشش ہے_
۴ _ كائنات پر خداوند متعال كى حاكميت اور اسكے عوامل