2%

آیت ۸۶

( قَالَ إِنَّمَا أَشْكُو بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللّهِ وَأَعْلَمُ مِنَ اللّهِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ )

يعقوب نے كہا كہ ميں اپنے حزن و غم اور اپنى بيقرارى كى فرياد اللہ كى بارگاہ ميں كررہاہوں اور اس كى طرف سے وہ سب جانتا ہوں جو تم نہيں جانتے ہو(۸۶)

۱_ حضرت يعقوبعليه‌السلام ، حضرت يوسفعليه‌السلام كے فراق ميں شديداور ناقابل تحمل غم ميں گرفتار تھے_

قال إنما أشكو ابثى و حزنى الى الله

(بث) لغت ميں شديدحزن كے معنى ميں ہے_ گويا اسكى شدت موجب بنتى ہے كہ اس غم كا مالك شخص اس كو تحمل نہيں كر سكتا ہے اس وجہ سے لوگوں كوبتاتا ہے اور اسے عام كرتا ہے_

۲_حضرت يعقوب(ع) ، فراق يوسفعليه‌السلام كے جان ليوا غم و اندوہ كى شكايت صرف خداوند متعال سے كرتے تھے _

قال إنما أشكو ابثى و حرنى الى اللّه

كسى شخص كے سامنے شكايت لے جانے كا معنى يہ ہے كہ اس شخص كواس شے كى برائي يا اس كے بارے ميں گلہ كرنا ہے پس اس صورت ميں (انما أشكوا بثى و حزنى إلى اللّہ ) يعنى فقط خداوند متعال كى ذات كو اسكى شكايت كروں گا كہ اس كے غم نے مجھ پر كتنا اثر كيا ہے اور ان كے بارے ميں فقط خداوند متعال كى ذات سے شكايت اور اس سے فيصلے كى دعا كروں گا_

۳ _ حضرت يعقوب(ع) ، نے كبھى بھى اپنے رنج و الم اور دكھ كى شكايت غير اللہ ( فرزندان اور اپنے اصحاب) سے نہيں كي_قال انما أشكو ابثى و حرنى الى اللّه

۴_حضرت يعقوبعليه‌السلام صرف خدا ند عالم كى ذات كو اپنے غم و دكھ كو دور كرنے پر قادر سمجھتے تھے_

قال إنما اشكو ابثى و حزنى إلى الله

حضرت يعقوبعليه‌السلام كا اپنے حزن و الم كى شكايت خداوند متعال كى ذات سے كرنے كا مقصد اپنے سے اس غم كو دور كرنے كى درخواست كرنا تھا_

۵_ حضرت يعقوب(ع) ، توحيدى فكر سے بہرہ مند تھے_قال إنما اشكو ابثى و حزنى الى اللّه

۶_ حضرت يعقوبعليه‌السلام ،جب اپنے بيٹوں اورساتھيوں كو اپنے غم واندوہ كى شكايت نہيں كرتے تھے تو انہيں اپنے اوپر