آیت ۸۸
( فَلَمَّا دَخَلُواْ عَلَيْهِ قَالُواْ يَا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنَا وَأَهْلَنَا الضُّرُّ وَجِئْنَا بِبِضَاعَةٍ مُّزْجَاةٍ فَأَوْفِ لَنَا الْكَيْلَ وَتَصَدَّقْ عَلَيْنَا إِنَّ اللّهَ يَجْزِي الْمُتَصَدِّقِينَ )
اب وہ جو لوگ دوبارہ يوسف كے پاس گئے تو كہنے لگے كہ اے عزيز ہم كو اور ہمارے گھر والوں كو بڑى تكليف ہے اور ہم ايك حقير ہى پونچى لے كر آئے ہيں آپ ہميں پور اپورا غلہ دنے ديں اور ہم پر احسان كريں كہ خدا كار خير كرنے ۲_ والوں كو جزائے خير ديتاہے (۸۸)
۱_ فرزندان يعقوب(ع) ، قحطى كے دوران تيسرى بار مصر آئے اور حضرت يوسفعليهالسلام كى خدمت ميں پہنچے_
فلما دخلوا عليه
۲ _ خاندان يعقوبعليهالسلام ، قحطى كے دوران بہت ہى تنگدستى اور رنج الم ميں گرفتار ہوا_قالوا مسّنا و أهلنا انصر
(مس) لمس كرنے اورارتباط كرنے كے معنى ميں ہے _(ضرّ) بہت زيادہ فقر اور سختى كے معنى ميں استعمال ہوتاہے _
۳_ فرزندان يعقوب(ع) نے (حضرت يوسفعليهالسلام كو) خاندان يعقوب(ع) كى مادى حالت كى خرابى اور معيشت كى سختى كے بارے ميں بتايا_قال ىا أيها العزيز مسّنا و أهلنا الضر و جئنا ببضاعة مزجية
۴_ حضرت يوسف(ع) ، قحطى مصر كے دوران اس علاقے ميں عزيزى كے عہدے پر فائز تھے_قالوا يا أيها العزيز
۵ _ حضرت يوسفعليهالسلام كے زمانے ميں حكومتى عہدوں ميں سے ''عزيزي'' ايك عہدہ تھا_قالوا يا أيها العزيز
۶_ حضرت يعقوبعليهالسلام كى اولاد، اہل و عيال ( بيوي، بچے و غيرہ) ركھتے تھے_مسّنا و أهلنا الضر
(أہل الرجل) بيوى ، بچے اور دوسرے رشتہ داروں كوكہا جاتاہے _
۷_ فرزندان يعقوبعليهالسلام ، مصركى طرف تيسرے سفر كے دوران اپنى خوراك كے حصے كو خريدنے كے ليے پورى قيمت نہيں ركھتے تھے_و جئنا ببضاعة مزجية فأوف لنا الكيل
(مزجاة) ناچيز اورحقير كے معنى ميں آتاہے _