آیت ۷۵
( ضَرَبَ اللّهُ مَثَلاً عَبْداً مَّمْلُوكاً لاَّ يَقْدِرُ عَلَى شَيْءٍ وَمَن رَّزَقْنَاهُ مِنَّا رِزْقاً حَسَناً فَهُوَ يُنفِقُ مِنْهُ سِرّاً وَجَهْراً هَلْ يَسْتَوُونَ الْحَمْدُ لِلّهِ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لاَ يَعْلَمُونَ )
اللہ نے خود اس غلام مملوك كى مثال بيان كى ہے جو كسى چيز كا اختيار نہيں ركھتا ہے اور اس آزاد انسان كى مثال بيان كى ہے جسے ہم نے بہترين رزق عطا كيا ہے اور وہ اس ميں خفيہ اور علانيہ انفاق كرتا رہتا ہے تو كيا يہ دونوں برابر ہوسكتے ہيں _ سارى تعريف صرف اللہ كے لئے ہى ہے مگر ان لوگوں كى اكثريت كچھ نہيں جانتى ہے _
۱_ خداوند عالم كے مقابلے ميں مخلوق اس زر خريد غلام كى مانند ہے جو زرہ برابر ارادہ اختيار نہيں ركھتا ہے_
ضرب مثلاً عبداً معلوكاً لا يقدر على شيئ
۲_ خداوند عالم نے عوام الناس كے ذہن كو مفاہيم وحى سے آشناكرنے كے ليے مثال اور تشبيہ سے استفادہ كيا ہے_
ضرب اللّه مثلاً عبدا
۳_انسانوں كا رزق و روزي، خداوند عالم كى جانب سے ہے_ومن رزقناه منّا رزقاً حسن
۴_انفاق كرنے كے ساتھ صاحب قدرت ہونا ، خداوند عالم كا انسان پر لطف اور اس كى نعمت ہے_
ومن رزقنا ه مناً رزقاً حسناً فهو ينفق منه سراً وجهر
۵_ مالكيت اور اختيارات كے سلسلہ ميں انسان متفاوت ہيں _
عبداً مملوكا لا يقدر على شيء ومن رزقنه ...فهو ينفق سراً وجهر
مذكورہ تفسير اس وجہ سے ہے كہ قرآن كى مثاليں حقيقى اور خارجى واقعيت سے حكايت كرتى ہيں نہ يہ كہ فرضى اور خيالى ہيں _
پنہاں اور پوشيدہ طورپر انفاق، على الاعلان اور آشكار انفاق سے بہتر اور قابل قدر ہے_فهو ينفق سراً و جهر
اس مطلب كا استفادہ اس ليے كيا گيا ہے كہ ''سراً'' كلمہ ''جھراً'' پر مقدم ہے_