2%

آیت ۱۵

( وَاسْتَفْتَحُواْ وَخَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ )

اور پيغمبروں نے ہم سے فتح كا مطالبہ كيا اور ان سے عناد ركھنے والے سركش افراد ذليل اور رسواہوگئے _

۱_كافر اقوام كى جانب سے دھمكى ملنے كے بعد انبياءعليه‌السلام كا خداوند متعال سے فتح كى دعا اور درخواست كرنا_

وقال الذين كفروا لرسلهم لنخرجنّكم ...و استفتحو ''استفتحوا'' ميں ضمير كا مرجع ہو سكتا ہے ''رسل'' ہو اور ہو سكتا ہے ''رسل'' اور''الذين كفروا ''ہو _مذكورہ بالا مطلب پہلے احتمال كى بناء پر اخذ كيا گيا ہے_

۲_انبياءعليه‌السلام كافر قوموں كے ہدايت پانے سے مايوس ہوكر ان پر لعنت كرتے تھے_قالت لهم رسلهم ...و استفتحو

انبياءے كرامعليه‌السلام روشن دليليں (بينات)پيش كرنے اور كفار سے چند بار گفتگو كرنے ، ان كى جانب سے دھمكى سننے اور خداوندعالم كى جانب سے (كفار كے لئے) تھديد انے كے بعد خداوند تعالى سے فتح كى درخواست كرتے تھے _اس سے معلوم ہوتا ہے كہ وہ اپنى قوم كى ہدايت كے بارے ميں كوئي اميد نہيں ركھتے تھے_

۳_انبياءعليه‌السلام اور انكے مخالف كفار ميں سے ہر ايك ، دوسرے پر فتح مند ہونا چاہتے تھے _و استفتحو

يہ اس بناء پر كہ جب '' استفتحوا'' كى ضمير كا مرجع انبياءعليه‌السلام اور كفار ہر دو ہوں _''وخاب كلّ جبّار عنيد''كا قرينہ بتاتا ہے كہ ان ميں سے ہر ايك دوسرے گروہ پر فتح پانا چاہتا تھا ليكن كفار كو فتح سے محروم ہونا پڑا_

۴_ ايك دوسرے پر غلبہ پانے كے سلسلے ميں كفار اور انبياءعليه‌السلام كا دعا كرنا ،كفار كے لئے نہ فقط نتيجہ بخش ثابت نہ ہوا بلكہ اس كى وجہ سے انہيں دنيوى ہلاكت سے بھى دوچار ہونا پڑا_و استفتحوا وخاب كلّ جبّار عنيد

لغت ميں ''خاب'' كا معنى ''ھلك'' ايا ہے لہذا ''استفتحوا ''كے قرينے سے ہو سكتا ہے ''خيبة'' كا مطلب ہلاكت ہو_

۵_ہر گمراہ جبار انسان دنيوى خسارے سے دوچار ہوتا ہے_وخاب كلّ جبّار عنيد

لغت ميں ''خاب''كا معنى ''خسر'' اور ''عنيد''كا معنى ''نيكى سے عدول كرنے والا'' ہے_

۶_جھوٹ اور غلط طريقے سے شخصيت بنانا ہى خسارہ ہے_خاب كلّ جبّار عنيد

راغب لكھتا ہے :انسان ميں صفت ''جبار'' كا استعمال ايسے شخص كے بارے ميں ہوتا ہے كہ جس ميں كوئي خامى ہو اور وہ غلط دعوى كے ذريعے ايسا مقام ومنزلت حاصل كر لے كہ جس كا وہ اہل نہيں _اور انسان كے بارے ميں يہ صفت فقط مذمت كے لئے استعمال ہوتى ہے_