آیت ۶
( فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلَى آثَارِهِمْ إِن لَّمْ يُؤْمِنُوا بِهَذَا الْحَدِيثِ أَسَفاً )
تو كيا آپ شدت افسوس سے ان كے پيچھے اپنى جان خطرہ ميں ڈال ديں گے اگر يہ لوگ اس بات پر ايمان نہ لائے (۶)
۱_قرآن كے مد مقابل كفار كا ايمان نہ لانا اور احمقانہ محاذ قائم كرنا، پيغمبر (ص) كے حزن و ملال كا موجب تھا_
فلعلّك باخع نفسك على ء اثارهم إن لم يؤمنوا بهذا الحديث ا سفا
''باخٌ نفسك'' اسے كہتے ہيں كہ جو ہيجان اور غم كى شدت سے خود كو ہلاكت ميں ڈال دے ''مقاييس اللغة'' ميں آيا ہے كہ اس وقت كہا جاتا ہے''بَخع الرجل نفسہ'' كہ وہ سخت غصہ اور شديد ہيجان كى بناء پر اپنے آپ كو ہلاك كرڈالے_
۲_پيغمبر(ص) لوگوں كى ہدايت اور ان كے قرآن پر ايمان كے حوالے سے بہت اشتياق اور حرص ركھتے تھے _
فلعلّك باخع نفسك على ء اثارهم إن لم يؤمنوا بهذا الحديث أسفا
۳_وہ لوگ جو پيغمبر(ص) سے دور تھے آپ (ص) انہيں الہي پيغاموں كے پہنچانے اور بار بار دعوت كرنے ميں جان فشانى سے بھى دريغ نہيں كر رہے تھے_فلعلك باخع نفسك على ء اثارهم إن لم يؤمنوا
''آثار'' يعنى كسى چيز سے باقى رہنے والے نشان تو جملہ ''لعلك باخع على آثارہم'' سے مراد يہ ہے كہ اے پيغمبر (ص) آپ منہ موڑنے والوں كے پيچھے جاتے ہو اور انہيں الہى دعوتيں پہنچانے كے قصد سے ان كے پيچھے جاكر اپنے آپ كو ہلاكت ميں ڈال رہے ہو_
۴_پيغمبر (ص) ، كفار كے مقدر اور بد انجام كى بناء پر گہرے رنج اور افسوس ميں تھے_
فلعلّك باخع نفسك على ء اثارهم إن لم يؤمنوا بهذا الحديث ا سفا
''آثار'' سے مراد قرآن پر ايمان نہ لانے كا نتيجہ اور عاقبت مراد ہوسكتى ہے_(إن لم يؤمنوا بهذا الحديث ) تو اس صورت ميں''باخع نفسك على آثارهم'' يعنى اے پيغمبر (ص) اپنے آپ كو ان غلط نتائج كہ جو ان كے كفر كى بناء پر ہيں ' رنج ومشقت ميں قرار نہ ديں _
۵_الله تعالى پيغمبروں (ع) كو كفار كے كفر پر باقى رہنے اور ہٹ دھرمى كى بناء پر مورد مواخذہ قرار نہيں دے گا_
فلعلك باخع نفسك على ء اثارهم إن لم يؤمنوا