2%

آیت ۴۰

( فَعَسَى رَبِّي أَن يُؤْتِيَنِ خَيْراً مِّن جنّاتكَ وَيُرْسِلَ عَلَيْهَا حُسْبَاناً مِّنَ السَّمَاءِ فَتُصْبِحَ صَعِيداً زَلَقاً )

تو اميدوار ہوں كہ ميرا پروردگار مجھے بھى تيرے باغات سے بہتر باغات عنايت كردے اور ان باغات پر آسمان سے ايسى آفت نازل كردے جو سب كو خاك كردے اور چيٹل ميدان بنادے (۴۰)

۱_مرد مؤمن نے اپنے پروردگار پر اميد ركھتے ہوئے مغرور مالدار كے باغ سے بڑھ كر نعمت كى آرزو كى _

فعسى ربّى أن يوتين خيراً من جنّاتك

۲_دنيا پرستوں كے مادى وسائل كى نسبت، مؤمن اچھے مستقبل اور عاقبت كے بارے ميں پر اميد تھا_

فعسى ربّى أن يوتين خيرا

مرد مؤمن كى''عسى ربيّ'' سے مراد ،ممكن ہے آخرت كے ثواب كا انتظار ہو ' زيادہ اولاد كى آرزو نہ كرنا اور جملہ ''ہنالك الولاية للّہ '' اورعبارت ''خير عقباً'' جو كہ ۴۴ آيت ميں ہے اس معنى كا احتمال دے رہى ہے _

۳_پروردگار كى ربوبيت كا تقاضا ہے كہ دنيا سے قلبى لگائو ركھنے والے مغرور اور مشركين سے نعمت كو سلب كياجائے اور موحدين كو ان سے بڑھ كر نعمت عطا كى جائے_فعسى ربّى أن يوتين خيراً من جنّاتك ويرسل عليها حسباناً من السمائ

۴_انسان كا الہى نعمتوں كو پانا، الله تعالى كى مرضى كى بناء پر ہے نہ كہ كسى كا ذاتى استحقاق _

فعسى ربّى ان يوتين خيراً من جنّاتك

كلمہ ''عسى '' اميد ركھنے كو بتا رہا ہے اور يہ اميد ركھنے كا اظہار مغرور ومالدار كے اپنى لياقت اور استحقاق پر يقين كے مد مقابل ہے كہ جس نے كہا تھا'' لئن رددت إلى ربّى لا جدنّ خيراً''

۵_دنيا كے مادى وسائل، ناپايدار زوال پذيراور تباہ وبرباد ہونے كے خطرہ ميں ہيں _