2%

آیت ۷۹

( أَمَّا السَّفِينَةُ فَكَانَتْ لِمَسَاكِينَ يَعْمَلُونَ فِي الْبَحْرِ فَأَرَدتُّ أَنْ أَعِيبَهَا وَكَانَ وَرَاءهُم مَّلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ غَصْباً )

يہ كشتى چند مساكين كى تھى جو سمندر ميں باربرداردى كا كام كرتے تھے ميں نے چاہا كہ اسے عيب دار بنادوں كہ ان كے پيچھے ايك بادشاہ تھا جو ہر كشتى كو غصب كرليا كرتا تھا (۷۹)

۱_ كشتى كو عيب دار بنانے سے حضرت خضر(ع) كا مقصد يہ تھا كہ اسے غاصب بادشاہ كے لوٹنے سے نجات دلائي جائے_

أما السفينة ...فا ردت ا ن أعيبها ...يأخذ كلّ سفينة غصبا

اگر چہ يہ كافى تھا كہ حضرت خضر(ع) كہتے كہ ميں نے اسے عيب دار بنايا ليكن انہوں نے كہا ہے كہ ميں نے پختہ ارادہ كيا كہ اسے عيب دار بناؤں تا كہ يہ نكتہ بيان كريں كہ جو كچھ كيا توجہ كے ساتھ اور اسكو غصب سے بچانے كيلئے كيا _

۲_ حضرت خضر(ع) كے ہاتھوں سوراخ ہونے والى كشتى ايكمسكين گروہ كى ملكيت ميں تھى اور انكے حصول رزق كا فقط يہى وسيلہ تھا _فكانت لمساكين يعملون فى البحر

۳_ حضرت موسى (ع) كے زمانہ ميں كشتى اور دريائي حمل ونقل در آمد كے ذارئع تھے _فكانت لمساكين يعملون فى البحر

۴_ قرار دا د كے ساتھ باہم شراكت جائز ہے اور گذشتہ اديان ميں بھى يہ چيز موجود تھى _فكانت لمساكين يعملون فى البحر

۵_ محروم لوگوں كى آخرى حد تك پشت پناہى اور انكے فائدہ كيلئے مخفيانہ كوشش، حضرت خضر(ع) كى ذمہ داريوں ميں سے تھى _فا ردت ا ن اعيبها وكان وراء هم ملك يا خذ كل سفينة غصبا

۶_كام اور در آمد كا ہونا، محروم لوگوں پر'' مسكين ''كا عنوان ،صادق آنے سے مانع نہيں ہے _وامَّا السفينةفكانت لمساكين

اگرچہ كشتى والوں كے پاس كشتى اور در آمد تھى ليكن ان پر لفظ ''مسكين '' كا اطلاق ہوا ہے لہذا كسى طرح كا كام اور در آمدكانہ ہونا، عنوان ''مسكين '' كے صادق آنے سے تعلق نہيں ركھتا ہے _

۷_ حضرت موسى (ع) اور خضر(ع) كى داستان كے زمانہ ميں ايك ظالم اور غاصب حكومت موجود تھي_وكان وراء هم ملك يا خذ كل سفينة غصبا ''ورائ'' ہر پوشيدہ جگہ كو كہتے ميں خواہ وہ سامنے ہى كيوں نہ ہو ( قاموس )اس بناء پر غاصب سلطان، مساكين اور كشتى والوں كے پيچھے لگا ہوا تھا يا ان كے آگے تھا اورانہوں نے دوران سفراس كاسامنا كرنا تھا_