2%

آیت ۲۷

( فَأَتَتْ بِهِ قَوْمَهَا تَحْمِلُهُ قَالُوا يَا مَرْيَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيّاً )

اس كے بعد مريم بچہ كو اٹھائے ہوئے قوم كے پاس آئيں تو لوگوں نے كہا كہ مريم يہ تم نے بہت برا كام كيا ہے (۲۷)

۱_ حضرت مريم نے اپنے نو مولود عيسي(ع) سے راہنمائي لينے كے بعد اسے اعلانيہ اپنى گود ميں ليا اور اپنى قوم كى طرف گئيں _فا تت به قومها تحمله

۲_ حضر ت مريم لوگوں كى طرف لوٹنے كے وقت ہر قسم كے خوف اور پريشانى سے خالى تھيں _

فكلى واشربى فإماتريّن من البشر فا تت به قومها تحمله

اگر چہ جملہ ( أتت بہ قومہا ) عيسي(ع) كا اپنى والدہ كے ذريعے واضح اظہار كيلئے مكمل تھا ليكن يہا ں جملہ حاليہ ( تحملہ ) كا بھى اضافہ ہوا ہے تا كہ مريم كے اپنے فرزند كو اٹھانے پر دلالت ہو گويا حضرت مريم ميں اپنے فرزند كو پنہان كرنے كا كوئي ارادہ ہى نہ رہا ہو بلكہ اعلانيہ انہيں گود ميں ليا اور لوگوں ميں چلى آئيں _

۳_لوگوں نے مريم كو اپنے بچے كے ہمراہ ديكھتے ہى بغير سوال وجواب كے ان پر زنا كى تہمت لگائي _

فا تت به قومها تحمله قالوايا مريم لقد جئت شئياً فريّا

( فريّا ) صفت شبہ ہے اس سے مراد سنگين، بڑا عجيب اورايسا كام ہے جو پہلے كبھى نہ ہوا ہو يہ لفظ مادہ ( فرى ) سے بنا ہے كہ جس كا معنى قطع يعنى توڑنا ہے يعنى ايسے عمل نے گذشتہ سنت كو توڑ ديا ہے بھرحال جنہوں نے بھى يہ لفظ كہا انكى مراد حضرت مريم پر زنا كى تہمت تھى _

۴_ حضرت مريم اپنى قوم ميں ماضى ميں بھى صحيح و سالم اورہر قسم كى بد نامى سے پاكيزہ تھيں _

قالو يا مريم لقد جئت شيئاً فريّا

( فرياً) بتا رہا ہے كہ لوگوں نے ايك فضول تصور كى بناء حضرت مريم كو خطا كا رجانا اور اس كام سے وہ حيران رہ گئے اسكو گذشتہ سنت كے مخالف جانا لہذا معلوم ہوا انكے نزديك مريم كا كردارانتہائي اچھااور پاكيزہ تھا _

۵_ حضرت مريم كے زمانہ ميں بيت المقدس كے لوگ ،اخلاقى اور جنسى انحرافات كے مقابل بہت حساس