2%

آیت ۲۹

( فَأَشَارَتْ إِلَيْهِ قَالُوا كَيْفَ نُكَلِّمُ مَن كَانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيّاً )

انھوں نے اس بچہ كى طرف اشارہ كرديا تو قوم نے كہا كہ ہم اس سے كيسے بات كريں جو گہوارے ميں بچہ ہے (۲۹)

۱_ حضرت مريم (ع) نے اپنے نو مولو د ( حضرت عيسى (ع) ) كى طرف اشارہ كرتے ہوئے اپنے او پر لگائي تہمت كے جواب كى ذمہ دارى انكے حوالے كي_و ماكانت أمّك بغياً _ فا شارت إليه

۲_ حضرت مريم (ع) اپنى قوم كى تہمتوں كا سامناكرتے وقت روزہ سے تھيں اور بات نہيں كررہى تھيں _

فا شارت إليه

۳_ حضرت مريم (ع) اپنے نو مولود فرزند حضرت عيسى (ع) ميں كلام كرنے اور تہمتوں كو دور كرنے كى قدرت پر يقين ركھتى تھيں _فا شارت إليه

حضرت مريم (ع) كا اپنى قوم ميں آنا اور اعلانيہ طور پر اپنے فرزند كولانا او رتہمتوں كے جواب دينے كے بجائے انكى طرف اشارہ كرنا، انكے يقين كو واضح كررہا ہے_

۴_ حضرت مريم(ع) اپنے نو مولود عيسى (ع) كے ساتھ اپنى قوم كي طرف دن كے وقت لوٹ كرآئي تھيں _

فلن أكلم اليوم إنسياً فأشارت إليه

۵_ لوگوں نے جب ديكھا كہ حضرت مريم (ع) نے تہمتوں كے جواب كى ذمہ دارى اپنے نو مولود حضرت عيسي(ع) كے كندھوں پر ڈال دى ہے تو وہ حيران رہ گئے انہوں نے اس چيز كو تسليم نہ كيا _

فأشارت إليه قالو كيف نكلّم من كان فى المهد صبيا

آيت ميں استفہام انكار ہے اور اس انكار كے ہمراہ بہت سى تاكيد بھى ہے_(۱) فعل ميں استفہام كہ جو ان موارد ميں ماضى پردلالت نہيں كررہا بلكہ قرار اور ثبات كوسمجھا رہا ہے (۲) ( فى المہد) كى قيد حضرت عيسي(ع) كى ہر قسم كى حركت سے عاجزى كى علامت ہے (۳) (صبيّا) قيدكى ( فى المہد ) كے ہوتے ہوئے ضرورت نہ تھى ليكن اسے كہنے دالوں نے اپنے انكار اور تعجب ميں اضافہ كر نے كيلئے كہا _

۶_ گہوارے ميں ليٹے ہوئے بچے كا زبان كھو لنا اور اپنى