اللہ اللہ کیا سفر کیا روح پرور خواب تھا
اللہ اللہ کیا سفر کیا روح پرور خواب تھا
فرشِ ریگِ راہِ طیبہ بسترِ سنجاب تھا
٭
نطقِ جاں شیرینیِ مدحت سے لذت یاب تھا
یہ کتابِ زندگی کا اک درخشاں باب تھا
٭
ارضِ طیبہ پر قدم تو کیا ، نظر جمتی نہ تھی
"ذرہ ذرہ رو کشِ خورشیدِ عالم تاب تھا "
٭
بن گیا اشکِ ندامت میری بخشش کا سبب
بربطِ امید کب سے تشنۂ مضراب تھا
٭
صبح کا تارا حضوری کا پیامی بن گیا
رات ہجرِ مصطفےٰ میں دل بہت بیتاب تھا
٭
آنکھ بیتابِ نظارا تھی نہ دل تھا مضطرب
اُن کے در پر ہر کوئی شائستۂ آداب تھا
٭
اللہ اللہ روبرو ہے گنبدِ خضرا ایاز
بن گیا عینِ حقیقت جو نظر کا خواب تھا
٭٭٭