25%

میرے ہاتھوں میں بیاضِ نعت کا شیرازہ تھا

میرے ہاتھوں میں بیاضِ نعت کا شیرازہ تھا

رات اک اُمی لقب کا فیض بے اندازہ تھا

٭

صف بہ صف استادہ تھے سارے فضائل سب علوم

مجھ پہ شہرِ علم کا وا ایک اک دروازہ تھا

٭

بخششیں ہوتی گئیں ہوتی گئیں ہوتی گئیں

میرے دامن کا اُنہیں پہلے ہی سے اندازہ تھا

٭

آپ دل میں آئے جنت کے دریچے کھل گئے

آپ سے پہلے یہ گھر زندانِ بے دروازہ تھا

٭

میرے دل پر آپ نے جب دستِ رحمت رکھ دیا

میرے حق میں حرفِ شیریں وقت کا دروازہ تھا

٭

آپ کی مدحت سے پہلے ننگ تھا ذوقِ سخن

فکر آوارہ تھی ، برہم ذہن کا شیرازہ تھا

٭

تھا تصور میں شبِ غم گنبدِ خضرا ایاز !

دل کا ایک اک زخمِ نادیدہ گلابِ تازہ تھا

٭٭٭