اللہ رے فیضِ عام شہِ خوش نگاہ کا
اللہ رے فیضِ عام شہِ خوش نگاہ کا
ذروں کو رنگ و نور دیا مہر و ماہ کا
٭
اُس کی بلندیوں کی کوئی انتہا نہیں
دربان جبرئیل ہو جس بارگاہ کا
٭
مشاّطگیِ باغِ جہاں آپ ہی سے ہے
"بے شانۂ صبا نہیں طرّہ گیاہ کا"
٭
مجھ پر بھی ہے نگاہِ کرم شہرِ علم کی
مدحت سرا ہوں میں بھی شہِ عرش جاہ کا
٭
اذنِ سفر ملے تو چُنوں ایک ایک خار
ہر خار برگِ گل ہے مدینے کی راہ کا
٭
شہرِ نبی کی آب و ہوا چاہئے مجھے
دار الشفا وہی ہے مِرے اشک و آہ کا
٭
آیا خیالِ گنبدِ خضرا جہاں ایاز
جلووں سے بھر گیا وہیں دامن نگاہ کا
٭٭٭