سعدی
نہ مجھ سے پوچھ کہ عمر گریز پا کیا ہے
کسے خبر کہ یہ نیرنگ و سیمیا کیا ہے
*
ہوا جو خاک سے پیدا، وہ خاک میں مستور
مگر یہ غیبت صغریٰ ہے یا فنا، کیا ہے!
*
غبار راہ کو بخشا گیا ہے ذوق جمال
خرد بتا نہیں سکتی کہ مدعا کیا ہے
*
دل و نظر بھی اسی آب و گل کے ہیں اعجاز
نہیں تو حضرت انساں کی انتہا کیا ہے؟
*
جہاں کی روح رواں لا الہ الا ھو،
مسیح و میخ و چلیپا ، یہ ماجرا کیا ہے!
*
قصاص خون تمنا کا مانگیے کس سے
گناہ گار ہے کون، اور خوں بہا کیا ہے
*
غمیں مشو کہ بہ بند جہاں گرفتاریم
طلسم ہا شکند آں دلے کہ ما داریم
*