25%

شکوہ گزارِ چرخ ستمگر نہیں ہوں میں

شکوہ گزارِ چرخ ستمگر نہیں ہوں میں

سرکار کا کرم ہے کہ مضطر نہیں ہوں میں

٭

شہرِ جمال میں بھی نہ اڑ پاؤں تیرے ساتھ

موجِ ہوا ! اب ایسا بھی بے پر نہیں ہوں میں

٭

طیبہ کے دشت و راغ بھی جنت بدوش ہیں

منّت پذیرِ گنبدِ بے در نہیں ہوں میں

٭

صد شکر میں گدائے شہِ مشرقین ہوں

دارا و کاقبںد و سکندر نہیں ہوں میں

٭

مجھ کو درِ حضور سے دوری کا رنج ہے

آلامِ روزگار کا خوگر نہیں ہوں میں

٭

مجھ سے گریز پا ہیں زمانے کی ٹھوکریں

آقا! کسی کی راہ کا پتھر نہیں ہوں میں

٭

مال و متاعِ عشقِ محمد ہے میرے پاس

یہ کس نے کہہ دیا کہ تونگر نہیں ہوں میں

٭