50%

گردِ رہِ مدینہ کے قابل نہیں رہا

گردِ رہِ مدینہ کے قابل نہیں رہا

"جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا"

٭

عجزِ سخن ، کمال ہے مدحت کے باب میں

اس فن میں کوئی میرا مقابل نہیں رہا

٭

اُن کے کرم سے کھل گئے سب عقدہ ہائے شوق

اب کوئی مرحلہ مجھے مشکل نہیں رہا

٭

اب میں ہوں اور عشقِ شہنشاہِ بحر و بر

اب کوئی رنج مدِّ مقابل نہیں رہا

٭

ہونٹوں پہ ہر نفس ہے وظیفہ حضور کا

میں اک نفس بھی آپ سے غافل نہیں رہا

٭

ہاں آپ کے خیال کی دولت ہے میرے پاس

ہاں میں نشاطِ دہر کا سائل نہیں رہا

٭

گُم ہو گئے ایاز مدینے کی راہ میں

احساسِ نارسائیِ منزل نہیں رہا

٭٭٭