درِ آقا پہ شب و روز کی زنجیر نہیں
درِ آقا پہ شب و روز کی زنجیر نہیں
یہ وہ منزل ہے جہاں وقت عِناں گیر نہیں
٭
جالیاں ، قصرِ سرِ عرش کے دروازے ہیں
گنبدِ سبز سے اونچی کوئی تعمیر نہیں
٭
روز آتی ہے عیادت کو نسیمِ طیبہ
کون کہتا ہے مِری آہ میں تاثیر نہیں
٭
وہ برابر مِری جانب نگراں رہتے ہیں
حادثاتِ متواتر سے میں دل گیر نہیں
٭
للہ الحمد کہ سرکار کی مدحت کے سوا
کچھ مِرے نامۂ اعمال میں تحریر نہیں
٭
خانۂ دل میں بجز جلوۂ محبوبِ خدا
کوئی خاکہ کوئی صورت کوئی تصویر نہیں
٭
سنگِ دیوارِ مصائب سے نہ سر پھوڑ ایاز
درِ اقدس پہ پہنچنے کی یہ تدبیر نہیں
٭٭٭