دل کو آئینہ دیکھا ، ذہن کو رسا پایا
دل کو آئینہ دیکھا ، ذہن کو رسا پایا
ہم نے اُن کی مدحت میں زیست کا مزہ پایا
٭
بے وسیلۂ احمد زندگی نے کیا پایا
آہ بے اثر دیکھی نالہ نارسا پایا
٭
جس طرف نظر اٹھی آپ ہی نظر آئے
سایہ افگنِ عالم دامنِ عطا پایا
٭
راستے کے پتھر ہوں یا سخن کے نشتر ہوں
آپ کو بہر عالم پیکرِ رضا پایا
٭
کون عرشِ اعظم پر آپ کے سوا پہنچا
کس نے سارے نبیوں میں ایسا مرتبہ پایا
٭
رحمتِ دو عالم سے ہم نے جب کبھی مانگا
ظرف سے سوا مانگا ، مانگ سے سوا پایا
٭
مرحبا ایاز اُن پر لطفِ خالقِ اکبر
تاجِ کُن فکاں سر پر ، عرش زیرِ پا، پایا
٭٭٭