9%

دوسرا دیباچہ

متعلق بہ ضمیمہ

١٣٠٣ ھ

حدیث درد دلآویز داستانے ہست

کہ ذوق بیش دہ چوں دراز تر گردو

***

مسدس مدو جز را سلام اول ہی اول ١٢٩٤ ھ میں چھپ کر شائع ہوا تھا ۔ اگر چہ اس نظم کی اشاعت سے شاید کوئی معتدبہ فائدہ سوسائٹی کو نہیں پہنچا ۔ مگر چھ برس میں جس قدر قبولیت و شہر ت اس نظم کو اطراف ہندوستان میں ہوئی وہ فی الواقع تعجب انگیز ہے ۔ نظم بالکل غیر مانوس تھی اور مضمون اکثر طعن و ملامت پر مشتمل تھے ۔ قوم کی برائیاں چن چن کر ظاہر کی گئی تھیں اور زبان سے تیغ و سناں کا کام لیا گیا تھا۔ ناظم کی نسبت قوم کے اکثر ابرار و اخیار مذہبی سو ء ظن رکھتے تھے۔ تعصب عموماً کلمہ حق سننے سے مانع تھا۔ با ایں ہمہ اس تھوڑی سی مدت میں یہ نظم ملک کے اطراف و جوانب میں پھیل گئی ۔ ہندوستان کے مختلف اضلاع میں اس کے ساتھ آٹھ ایڈیشن اب سے پہلے شائع ہو چکے ہیں ۔ بعض قومی مدرسوں میں اس کا انتخاب بچوں کو پڑھایا جاتا ہے ۔ مولود شریف کی مجلسوں میں جا بجا اس کے بند پڑھے جاتے ہیں ۔ اکثر لوگ اس کو پڑھ کر بے اختیار روتے اور آنسو بہاتے ہیں ۔ اس کے بہت سے بند ہمارے واعظوں کی زبان پر جاری ہیں ۔ کہیں کہیں قومی ناٹک میں اس کے مضامین ایکٹ کیے جاتے ہیں ۔ بہت سے مسدس اسی کی روش پر اسی بحر میں ترتیب دیئے گئے ہیں ۔ اکثر اخباروں میں موافق و مخالف ریویو اس پر لکھے گئے ہیں ۔ شمال مغربی اضلاع کے سرکاری مدارس میں عام قبولیت کی وجہ سے اس کو تعلیم میں دخل کر دیا گیا ہے ۔ یہ او ر اسی قسم کی اور بہت سی باتیں ایسی ہیں جس سے معلوم ہو تا ہے کہ قوم کے دل میں متاثر ہونے کا مادہ نہ ہوتا تو یہ اور ایسی ایسی ہزار نظمیں بے کار تھیں ۔ پس مصنف کو اگر فخر ہے تو صرف اس بات پت ہے کہ اس نے زمین گردانا ہے جو بے راہ ہے پر گمراہ نہیں ہے وہ رستے سے بھٹکے ہوئے میں مگر رستے کی تلاش میں چپ دراست نگراں ہیں ۔ اس کے ہنر مفقود ہو گئے ہیں مگر قابلیت موجود ہے ۔