مسدسِ (۳۴)
پر اب اس میں رو کچھ کچھ آنے لگی ہے
کناروں کو اس کے ہلانے لگی ہے
ہوا بلبلے کچھ اٹھانے لگی ہے
عفونت وہ پانی سے جانے لگی ہے
اگر ہو نہ یہ انقلاب اتفاقی
تو دریا میں بس اک تموج ہے باقی
***
حوادث نے ان کو ڈرایا ہے کچھ کچھ
مصائب نے نیچا دکھایا ہے کچھ کچھ
ضرورت نے رستہ بتایا ہے کچھ کچھ
زمانے کے غل نے جگایا ہے کچھ کچھ
ذرا دست و بازو ہلانے لگے ہیں
وہ سوتے میں کچھ کلبلانے لگے ہیں
***
رہِ راست پر ہیں وہ کچھ آتے جاتے
تعلی سے ہیں اپنی شرماتے جاتے
تفاخر سے ہیں اپنے پچتاتے جاتے
سراغ اپنا کچھ کچھ ہیں وہ پاتے جاتے
بزرگی کے دعووں سے پھرنے لگے ہیں
وہ خود اپنی نظروں سے گرنے لگے ہیں
***