مسدسِ (۳۵)
ذرا پھر کے پیچھے وہ جب دیکھتے ہیں
وہ اپنا حسب اور نسب دیکھتے ہیں
بزرگوں کا علم و ادب دیکھتے ہیں
سر افرازیِ جدّو اب دیکھتے ہیں
تو ہیں فخر سے وہ کبھی سر اٹھاتے
کبھی ہیں ندامت سے گردن جھکاتے
***
اگر کچھ بھی باقی ہو یاروں میں ہمت
تو ان کا یہی افتخار اور ندامت
شگونِ سعادت ہے اور فال دولت
کہ آتی ہے کچھ اس سے بوئے حمیت
وہ کھو بیٹھے آخر کمائی بڑوں کی
بھلا دی جنہوں نے بڑائی بڑوں کی
***
اسیری میں جو گرم فریاد ہیں یاں
وہی آشیاں کرتے آباد ہیں یاں
قفس سے وہی ہوتے آزاد ہیں یاں
چمن کے جنہیں چہچہے یاد ہیں یاں
وہ شاید قفس ہی میں عمریں گنوائیں
گئیں بھول صحرا کی جن کو فضائیں
***