مسدسِ (۳۶)
جہاں سود ہے یاں وہیں ہے زیاں بھی
جہاں روشنی ہے وہیں ہے دھواں بھی
سقر بھی ہے یہ خاکداں اور جناں بھی
بہاریں بھی ہیں اس چمن میں خزاں بھی
نکھرتے ہیں جویاں وہ گدلاتے بھی ہیں
چمکتے ہیں جو یاں وہ گہناتے بھی ہیں
***
ضعیف اور قومی امنی اور عراقی
چکھاتا ہے درد قدح سب کو ساقی
پہ اقبال کی ہے رمق جن میں باقی
یہ سب تلخیاں ان میں ہیں اتفاقی
بلاؤں میں گھر کر نکل جاتے ہیں وہ
ذرا ڈگمگا کر سنبھل جاتے ہیں وہ
***
نہیں ہوتے نیرنگِ گردوں سے حرناں
ہر اک درد کا ڈھونڈ لیتے ہیں درماں
اٹھاتے نہیں کچھ حوادث سے نقصاں
وہ چونک اٹھتے ہیں دیکھ خواب پریشاں
بھڑکتے ہیں افسردہ ہو کر سوا وہ
بھبکتے ہیں پژ مردہ ہو کر سوا وہ
***