مسدسِ (۱۱)
رجال اور اسانید کے جو ہیں دفتر
گواہ ان کی آزادگی کے ہیں یکسر
نہ تھا ان کا احساں یہ اک اہلِ دیں پر
وہ تھے اس میں ہر قوم و ملت کے رہبر
لبرٹی میں جو آج فائق ہیں سب سے
بتائیں کہ لبرل بنے ہیں وہ کب سے
***
فصاحت کے دفتر تھے سب گاؤ خوردہ
بلاغت کے رستے تھے سب نا سپردہ
ادھر روم کی شمع انشا تھی مردہ
ادھر آتشِ پارسی تھی فسردہ
یکایک جو برق آ کے چمکی عرب کی
کھلی کی کھلی رہ گئی آنکھ سب کی
***
عرب کی جو دیکھی وہ آتش زبانی
سنی بر محل ان کی شیوا بیانی
وہ اشعار کی دل میں ریشہ دوانی
وہ خطبوں کی مانند دریا روانی
وہ جادو کے جملے وہ فقرے فسوں کے
تو سمجھے کہ گویا ہم اب تک تھے گونگے
***