دن گزرا آشفتہ سر خاموش ہوئے
دن گزرا آشفتہ سر خاموش ہوئے
شام ہوئی اور بام و در خاموش ہوئے
*
شام ہوئی اور سورج رستہ بھول گیا
کیسے ہنستے بستے گھر خاموش ہوئے
*
بولتی آنکھیں چپ دریا میں ڈوب گئیں
شہر کے سارے تہمت گر خاموش ہوئے
*
کیسی کیسی تصویروں کے رنگ اڑے
کیسے کیسے صورت گر خاموش ہوئے
*
کھیل تماشہ بربادی پر ختم ہوا
ہنسی اڑا کر بازی گر خاموش ہوئے
*
کچی دیواریں بارش میں بیٹھ گئیں
بیتی رت کے سب منظر خاموش ہوئے
*
ابھی گیا ہے کوئی مگر لگتا ہے
جیسے صدیاں بںتش گھر خاموش ہوئے
٭٭٭