سمجھ رہے ہیں مگر بولنے کا یارا نہیں
سمجھ رہے ہیں مگر بولنے کا یارا نہیں
جو ہم سے مل کے بچھڑ جائے وہ ہمارا نہیں
*
ابھی سے برف بالوں میں الجھنے لگی ہے بالوں سے
ابھی تو قرض مہ و سال بھی اتارا نہیں
*
بس ایک شام اُسے آواز دی تھی ہجر کی شام
پھر اس کے بعد تو ہم نے اسے پکارا نہیں
*
ہوا کچھ ایسی چلی ہے کہ تیرے وحشی کو
مزاج پرسی باد صبا گوارا نہیں
*
سمندروں کو بھی حیرت ہوئی کے ڈوبتے وقت
کسی کو ہم نے مدد کے لیے پکارا نہیں
*
وہ ہم نہیں تھے پھر کون تھا سر بازار
جو کہہ رہا تھا کہ بکنا ہمیں گوارہ نہیں
*
ہم اہل دل ہیں محبت کی نسبتوں کے امین
ہمارے پاس زمینوں کا کوئی گوشوارہ نہیں
٭٭٭