50%

سمجھ رہے ہیں مگر بولنے کا یارا نہیں

سمجھ رہے ہیں مگر بولنے کا یارا نہیں

جو ہم سے مل کے بچھڑ جائے وہ ہمارا نہیں

*

ابھی سے برف بالوں میں الجھنے لگی ہے بالوں سے

ابھی تو قرض مہ و سال بھی اتارا نہیں

*

بس ایک شام اُسے آواز دی تھی ہجر کی شام

پھر اس کے بعد تو ہم نے اسے پکارا نہیں

*

ہوا کچھ ایسی چلی ہے کہ تیرے وحشی کو

مزاج پرسی باد صبا گوارا نہیں

*

سمندروں کو بھی حیرت ہوئی کے ڈوبتے وقت

کسی کو ہم نے مدد کے لیے پکارا نہیں

*

وہ ہم نہیں تھے پھر کون تھا سر بازار

جو کہہ رہا تھا کہ بکنا ہمیں گوارہ نہیں

*

ہم اہل دل ہیں محبت کی نسبتوں کے امین

ہمارے پاس زمینوں کا کوئی گوشوارہ نہیں

٭٭٭