رنگ تھا روشنی تھا قامت تھا
جس پہ ہم مر مٹے قیامت تھا
*
خوش جمالوں میں دھوم تھی اپنی
نام اس کا بھی وجہ شہرت تھا
*
پاس آوارگی ہمیں بھی بہت
اس کو بھی اعتراف وحشت تھا
*
ہم بھی تکرار کے نہ تھے خوگر
وہ بھی ناآشنائے حجت تھا
*
خواب تعبیر بن کے آتے تھے
کیا عجب موسم رفاقت تھا
*
اپنے لہجے کا بانکپن سارا
اس کے پندار کی امانت تھا
*
اس کے کندن بدن کا روپ سروپ
حسن احساس کی بدولت تھا
*
ایک اک سانس قربتوں کا گواہ
ہر نفس لمحہ غنیمت تھا
*
اور پھر یوں ہوا کہ ٹوٹ گیا
وہ جو اک رشتۂ محبت تھا