کہیں سے کوئی حرف معتبر شاید نہ آئے
کہیں سے کوئی حرف معتبر شاید نہ آئے
مسافر لوٹ کر اب اپنے گھر شاید نہ آئے
*
قفس میں آب و دانے کی فراوانی بہت ہے
اسیروں کو خیال ِ بال و پر شاید نہ آئے
*
کسے معلوم اہل ہجر پر ایسے بھی دن آئیں
قیامت سر سے گزرے اور خبر شاید نہ آئے
*
جہاں راتوں کو پڑ رہتے ہیں آنکھیں موند کر لوگ
وہاں مہتاب میں چہرہ نظر شاید نہ آئے
*
کبھی ایسا بھی دن نکلے کہ جب سورج کے ہمراہ
کوئی صاحب نظر آئے مگر شاید نہ آئے
*
سبھی کو سہل نگاری ہنر لگنے لگی ہے
سروں پر اب غبار ِ راہگزر شاید نہ آئے
٭٭٭