50%

ذرا سی دیر کو آئے تھے خواب آنکھوں میں

ذرا سی دیر کو آئے تھے خواب آنکھوں میں

پھر اس کے بعد مسلسل عذاب آنکھوں میں

*

وہ جس کے نام کی نسبت سے روشن تھا وجود

کھٹک رہا ہے وہی آفتاب آنکھوں میں

*

جنھیں متاع ِ دل و جان سمجھ رہے تھے ہم

وہ آئیے بھی ہوئے بے حجاب آنکھوں میں

*

عجب طرح کا ہے موسم کہ خاک اڑتی ہے

وہ دن بھی تھے کہ کھلے تھے گلاب آنکھوں میں

*

مرے غزال تری وحشتوں کی خیر کہ ہے

بہت دنوں سے بہت اضطراب آنکھوں میں

*

نہ جانے کیسی قیامت کا پیش خیمہ ہے

یہ الجھنیں تری بے انتساب آنکھوں میں

*

جواز کیا ہے مرے کم سخن بتا تو سہی

بنام خوش نگہی ہر جواب آنکھوں میں

٭٭٭