ذرا سی دیر کو آئے تھے خواب آنکھوں میں
ذرا سی دیر کو آئے تھے خواب آنکھوں میں
پھر اس کے بعد مسلسل عذاب آنکھوں میں
*
وہ جس کے نام کی نسبت سے روشن تھا وجود
کھٹک رہا ہے وہی آفتاب آنکھوں میں
*
جنھیں متاع ِ دل و جان سمجھ رہے تھے ہم
وہ آئیے بھی ہوئے بے حجاب آنکھوں میں
*
عجب طرح کا ہے موسم کہ خاک اڑتی ہے
وہ دن بھی تھے کہ کھلے تھے گلاب آنکھوں میں
*
مرے غزال تری وحشتوں کی خیر کہ ہے
بہت دنوں سے بہت اضطراب آنکھوں میں
*
نہ جانے کیسی قیامت کا پیش خیمہ ہے
یہ الجھنیں تری بے انتساب آنکھوں میں
*
جواز کیا ہے مرے کم سخن بتا تو سہی
بنام خوش نگہی ہر جواب آنکھوں میں
٭٭٭