خواب کی طرح بکھر جانے کو جی چاہتا ہے
خواب کی طرح بکھر جانے کو جی چاہتا ہے
ایسی تنہائی کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے
*
گھر کی وحشت سے لرزتا ہوں مگر جانے کیوں
شام ہوتی ہے تو گھر جانے کو جی چاہتا ہے
*
ڈوب جاؤں تو کوئی موج نشاں ت ک نہ بتائے
ایسی ندی میں اتر جانے کو جی چاہتا ہے
*
کبھی مل جائے تو رستے کی تھکن جاگ جائے
ایسی منزل سے گزر جانے کو جی چاہتا ہے
*
وہی پیماں جو کبھی جی کو خوش آیا تھا بہت
اُسی پیماں سے مکر جانے کو جی چاہتا ہے
٭٭٭