اے میری زندگی کے خواب، شام بخیر شب بخیر
اے میری زندگی کے خواب، شام بخیر شب بخیر
ڈوب چلا ہے آفتاب، شام بخیر، شب بخیر
*
ایسا نہ ہو کہ دن ڈھلے روح کا زخم کھل اٹھے
کیسے کہوں مرے گلاب، شام بخیر شب بخیر
*
تیرہ شبی کی وحشتیں اب کوئی دن کی بات ہے
خلوت جاں کے ماہتاب شام بخیر شب بخیر
*
میں بھی وفا سرشت ہوں پاس وفا تجھے بھی ہے
دونوں کھلی ہوئی کتاب ، شام بخیر شب بخیر
*
موسم ابر و باد سے اب جو ڈریں تو کس لیے
کھل کے برس چکا سحاب، شام بخیر شب بخیر
*
میری نظر ، میرا شعور، میری غزل میرا جنوں
سب کا تجھی سے انتساب، شام بخیر، شب بخیر
٭٭٭