25%

جن کی پرواز کے چرچے کبھی افلاک میں تھے

جن کی پرواز کے چرچے کبھی افلاک میں تھے

آنکھ جھپکی تھی کہ وہ عشز نشیں خاک میں تھے

*

جس پہ اب تہمت ِ شب رنگ کے آوازے ہیں

کتنے سورج تھے کہ دامنِ صد چاک میں تھے

*

جانے کس وادی بے ابر کی قمست ٹھہرے

ہائے وہ لوگ جو اس موسم سفاک میں تھے

*

جن سے دلداری جاناں کے قرینے یاد آئیں

ایسے تیور بھی مرے لہجہ بے باک میں تھے

*

زرد پتوں کی طرح خواب اڑتے پھرتے تھے

پھر بھی کچھ رنگ میرے دیدہ نمناک میں تھے

*

شہر ِ بے رنگ ترے لوگ گواہی دے گے

ہم سے خوش رنگ بھی تیرے خس و خاشاک میں تھے

٭٭٭