جن کی پرواز کے چرچے کبھی افلاک میں تھے
جن کی پرواز کے چرچے کبھی افلاک میں تھے
آنکھ جھپکی تھی کہ وہ عشز نشیں خاک میں تھے
*
جس پہ اب تہمت ِ شب رنگ کے آوازے ہیں
کتنے سورج تھے کہ دامنِ صد چاک میں تھے
*
جانے کس وادی بے ابر کی قمست ٹھہرے
ہائے وہ لوگ جو اس موسم سفاک میں تھے
*
جن سے دلداری جاناں کے قرینے یاد آئیں
ایسے تیور بھی مرے لہجہ بے باک میں تھے
*
زرد پتوں کی طرح خواب اڑتے پھرتے تھے
پھر بھی کچھ رنگ میرے دیدہ نمناک میں تھے
*
شہر ِ بے رنگ ترے لوگ گواہی دے گے
ہم سے خوش رنگ بھی تیرے خس و خاشاک میں تھے
٭٭٭