یہ اب کھلا کہ کوئی بھی منظر مرا نہ تھا
یہ اب کھلا کہ کوئی بھی منظر مرا نہ تھا
میں جس میں رہ رہا تھا وہی گھر مرا نہ تھا
*
میں جس کو ایک عمر سنبھالے پھرا کیا
مٹی بتا رہی ہے وہ پیکر مرا نہ تھا
*
موج ہوائے شہر ِ مقدر جواب دے
دریا مرے نہ تھے کہ سمندر مرا نہ تھا
*
پھر بھی تو سنگسار کیا جا رہا ہوں میں
کہتے ہیں نام تک سر محضر مرا نہ تھا
*
سب لوگ اپنے اپنے قبیلوں کے ساتھ تھے
اک میں ہی تھا کہ کوئی بھی لشکر مرا نہ تھا
٭٭٭