25%

امید و بیم کے محور سے ہٹ کے دیکھتے ہیں

امید و بیم کے محور سے ہٹ کے دیکھتے ہیں

ذرا سی دیر کو دنیا سے کٹ کے دیکھتے ہیں

*

بکھر چکے ہیں بہت باغ و دشت و دریا

اب اپنے حجرہ جاں میں سمٹ کے دیکھتے ہیں

*

تمام خانہ بدوشوں مین مشترک ہے یہ بات

سب اپنے گھروں کو پلٹ کے دیکھتے ہیں

*

پھر اس کے بعد جو ہونا ہے ہو رہے سر دست

بساط َ عافیت ِ جاں الٹ کے دیکھتے ہیں

*

وہی ہے خواب جسے مل کے سب نے دیکھا تھا

اب اپنے اپنے قبیلوں میں بٹ کے دیکھتے ہیں

*

سنا ہے کہ سبک ہو چلی ہے قیمت حرف

سو ہم بھی اب قد و قامت میں گھٹ کے دیکھتے ہیں

٭٭٭