امید و بیم کے محور سے ہٹ کے دیکھتے ہیں
امید و بیم کے محور سے ہٹ کے دیکھتے ہیں
ذرا سی دیر کو دنیا سے کٹ کے دیکھتے ہیں
*
بکھر چکے ہیں بہت باغ و دشت و دریا
اب اپنے حجرہ جاں میں سمٹ کے دیکھتے ہیں
*
تمام خانہ بدوشوں مین مشترک ہے یہ بات
سب اپنے گھروں کو پلٹ کے دیکھتے ہیں
*
پھر اس کے بعد جو ہونا ہے ہو رہے سر دست
بساط َ عافیت ِ جاں الٹ کے دیکھتے ہیں
*
وہی ہے خواب جسے مل کے سب نے دیکھا تھا
اب اپنے اپنے قبیلوں میں بٹ کے دیکھتے ہیں
*
سنا ہے کہ سبک ہو چلی ہے قیمت حرف
سو ہم بھی اب قد و قامت میں گھٹ کے دیکھتے ہیں
٭٭٭