جیسا ہوں ویسا کیوں ہوں سمجھا سکتا تھا میں
جیسا ہوں ویسا کیوں ہوں سمجھا سکتا تھا میں
تم نے پوچھا ہوتا تو بتلا سکتا تھا میں
*
آسودہ رہنے کی خواہش مار گئی ورنہ
آگے اور بہت آگے تک جا سکتا تھا میں
*
چھوٹی موٹی ایک لہر ہی تھی میرے اندر
ایک لہر سے کیا طوفان اٹھا سکتا تھا میں
*
کہیں کہیں سے کچھ مصرعے ایک آدھ غزل
اس پونجی پر کتنا شور مچا سکتا تھا میں
*
جیسے سب لکھتے رہتے ہیں غزلیں، نظمیں گیت
ویسے لکھ لکھ کر انبار لگا سکتا تھا میں
٭٭٭