50%

انھیں بستیوں میں جیتے انھیں بستیوں میں مر رہتے

انھیں بستیوں میں جیتے انھیں بستیوں میں مر رہتے

یہ چاہتے تھے مگر کس کے نام پر رہتے

*

پیمبروں سے زمینیں وفا نہیں کرتیں

ہم ایسے کون خدا تھے کہ اپنے گھروں میں رہتے

*

پرندے جاتے نہ جاتے پلٹ کے گھر اپنے

پر اپنے ہم شجروں سے تو با خبر رہتے

*

بس اک خاک کا احسان ہے کہ خیر سے ہیں

وگرنہ صورت خاشاک دربدر رہتے

*

مرے کریم جو تیری رضا مگر اس بار

برس گزر گئے شاخوں کو بے ثمر رہتے

٭٭٭