انھیں بستیوں میں جیتے انھیں بستیوں میں مر رہتے
انھیں بستیوں میں جیتے انھیں بستیوں میں مر رہتے
یہ چاہتے تھے مگر کس کے نام پر رہتے
*
پیمبروں سے زمینیں وفا نہیں کرتیں
ہم ایسے کون خدا تھے کہ اپنے گھروں میں رہتے
*
پرندے جاتے نہ جاتے پلٹ کے گھر اپنے
پر اپنے ہم شجروں سے تو با خبر رہتے
*
بس اک خاک کا احسان ہے کہ خیر سے ہیں
وگرنہ صورت خاشاک دربدر رہتے
*
مرے کریم جو تیری رضا مگر اس بار
برس گزر گئے شاخوں کو بے ثمر رہتے
٭٭٭