قلم جب درہم و دینار میں تولے گئے تھے
قلم جب درہم و دینار میں تولے گئے تھے
کہاں تک دل کی چنگاری ترے شعلے گئے تھے
*
فصیل شہر لب بستہ، گواہی دے کچھ لوگ
دہان ِ حلقہ زنجیر سے بولے گئے تھے
*
تمام آزاد آوازوں کے چہرے گرد ہو جائیں گے
فضاؤں میں کچھ ایسے زہر بھی گھولے گئے تھے
*
فساد ِ خوں سے سارا بدن تھا زخم زخم
سو نشتر سے نہیں شمشیر سے کھولے گئے تھے
*
وہ خاک پاک ہم اہل محبت کو ہے اکسیر
سر مقتل جہاں نیزوں پہ سر تولے گئے تھے
٭٭٭