50%

قلم جب درہم و دینار میں تولے گئے تھے

قلم جب درہم و دینار میں تولے گئے تھے

کہاں تک دل کی چنگاری ترے شعلے گئے تھے

*

فصیل شہر لب بستہ، گواہی دے کچھ لوگ

دہان ِ حلقہ زنجیر سے بولے گئے تھے

*

تمام آزاد آوازوں کے چہرے گرد ہو جائیں گے

فضاؤں میں کچھ ایسے زہر بھی گھولے گئے تھے

*

فساد ِ خوں سے سارا بدن تھا زخم زخم

سو نشتر سے نہیں شمشیر سے کھولے گئے تھے

*

وہ خاک پاک ہم اہل محبت کو ہے اکسیر

سر مقتل جہاں نیزوں پہ سر تولے گئے تھے

٭٭٭