فریب کھا کے بھی اک منزل قرار میں ہیں
فریب کھا کے بھی اک منزل قرار میں ہیں
وہ اہل ہجر کے آسیب اعتبار میں ہیں
*
زمین جن کے لیے بوجھ تھی وہ عرش مزاج
نہ جانے کون سے موبر پہ کس مدار میں ہیں
*
پرانے درد ، پرانی محبتوں کے گلاب
جہاں بھی ہیں خس و خاشاک کے حصار میں ہیں
*
اڑائی تھی جو گروہ ِ ہوس نہاد نے دھول
تمام منزلیں اب تک اُسی غبار میں ہیں
*
نہ جانے کون سی آنکھیں وہخواب دیکھیں گی
وہ ایک خواب کہ ہم جس کے انتظار میں ہیں
*
چراغ کون سے بجھنے ہیں کن کو رہنا ہے
یہ فیصلے ابھی اوروں کے اختیار میں ہیں
٭٭٭