75%

فریب کھا کے بھی اک منزل قرار میں ہیں

فریب کھا کے بھی اک منزل قرار میں ہیں

وہ اہل ہجر کے آسیب اعتبار میں ہیں

*

زمین جن کے لیے بوجھ تھی وہ عرش مزاج

نہ جانے کون سے موبر پہ کس مدار میں ہیں

*

پرانے درد ، پرانی محبتوں کے گلاب

جہاں بھی ہیں خس و خاشاک کے حصار میں ہیں

*

اڑائی تھی جو گروہ ِ ہوس نہاد نے دھول

تمام منزلیں اب تک اُسی غبار میں ہیں

*

نہ جانے کون سی آنکھیں وہ‌خواب دیکھیں گی

وہ ایک خواب کہ ہم جس کے انتظار میں ہیں

*

چراغ کون سے بجھنے ہیں کن کو رہنا ہے

یہ فیصلے ابھی اوروں کے اختیار میں ہیں

٭٭٭