وہی پیاس ہے وہی دشت ہے وہی گھرانا ہے
وہی پیاس ہے وہی دشت ہے وہی گھرانا ہے
مشکیزے سے تیر کا رشتہ بہت پرانا ہے
*
صبح سویرے رن پڑتا ہے اور گھمسان کا رن
راتوں رات چلا جائے جس کو جانا ہے
*
ایک چراغ اور ایک کتاب اور ایک امید اثاثہ
اس کے بعد تو جو کچھ ہے وہ سب افسانہ ہے
*
دریا پر قبضہ تھا جس کا اس کی پیاس عذاب
جس کی ڈھالیں چمک رہیں تھیں وہی نشانہ ہے
*
کاسہ شام میں سورج کا سر اور آواز ِ اذان
اور آواز اذان کہتی ہے فرض نبھانا ہے
*
سب کہتے ہیں اور کوئی دن یہ ہنگامہ دہر
دل کہتا ہے ایک مسافر اور بھی آنا ہے
*
ایک جزیرہ اس کے آگے پیچھے سات سمندر
سات سمندر پار سنا ہے ایک خزانہ ہے
٭٭٭