جہاں بھی رہنا ہمیں یہی اک خیال رکھنا
زمین فردا پہ سنگ ِ بنیاد ِ حال رکھنا
*
حضور ِ اہل کمال ِ فن سجدہ ریز رہنا
نگاہ میں طرہ کلاہ ِ کمال رکھنا
*
وہ جس نے بخشی ہے بے نواؤں کو نعمت حرف
وہی سکھا دے گا حرف کو بے مثال رکھنا
*
اندھیری راتوں میں گریہ بے سبب کی توفیق
میسر آئے تو غم کی دولت سنبھال رکھنا
٭٭٭
سورج تھے چراغ ِ کف جادہ میں نرن آئے
سورج تھے چراغ ِ کف جادہ میں نرن آئے
ہم آیسے سمندر تھے کہ دریا میں نظر آئے
*
دنیا تھی رگ و پے میں سمائی ہوئی ایسی
ضد تھی کہ سبھی کچھ اسی دنیا میں نظر آئے
*
سرمایہ جاں لوگ۔ متاع دو جہاں لوگ
دیکھا تو سبھی ایل تماشہ میں نظر آئے
*
خود دامن یوسف کی تمنا تھی کہ ہو چاک
اب کے وہ ہنر دست زلیخا میں نظر آئے
٭٭٭