اک خواب ِ دل آویز کی نسبت سے ملا کیا
اک خواب ِ دل آویز کی نسبت سے ملا کیا
جز دربدری اس درِ دولت سے ملا کیا
*
آشوب فراغت! ترے مجرم ترے مجبور
کہہ بھی نہیں سکتے کہ فراغت سے ملا کیا
*
اک نغمہ کہ خود کو اپنے ہی آہنگ سے محجوب
اک عمر کے پندار ِ سماعت سے ملا کیا
*
اک نقش کہ خود اپنے ہی رنگوں سے ہراساں
آخر کو شب و روز کی وحشت سے ملا کیا
*
جاں دے کر بھی بالا نہ ہوئے نرخ ہمارے
بازار معانی میں مشقت سے ملا کیا
*
جیتا ہوا میدان کہ ہاری ہوئی بازی
اس خانہ خرابی کی اذیت سے ملا کیا
*
اک خلعت دشنام و کلاہ سخن ِ بد
شہرت تو بہت پائی پہ شہرت سے ملا کیا
٭٭٭