ہمیں خبر تھی کہ یہ درد اب تھمے گا نہیں
ہمیں خبر تھی کہ یہ درد اب تھمے گا نہیں
یہ دل کا ساتھ بہت دیر تک رہے گا نہیں
*
ہمیں خبر تھی کوئی آنکھ نم نہیں ہو گی
ہمارے غم میں کہیں کوئی دل دکھے گا نہیں
*
ہمیں خبر تھی کہ اک روز یہ بھی ہونا ہے
کہ ہم کلام کریں گے کوئی سنے گا نہیں
*
ہماری دربدری جانتی تھی برسوں سے
گھر جائیں بھی تو کوئی پناہ دے گا نہیں
*
ہماری طرح نہ آئے گا کوئی نرغے میں
ہماری طرح کوئی قافلہ لٹے گا نہیں
*
نمود خواب کی باتیں شکست خواب کا ذکر
ہمارے بعد یہ قصے کوئی کہے گا نہیں
*
غریب شہر ہو یا شہر یار ہفت اقلیم
یہ وقت ہے یہ کسی کے لیے رکے گا نہیں
*
مگر چراغ ہنر کا معاملہ ہے کچھ اور
یہ ایک بار جلا ہے تو اب بجھے گا نہیں
٭٭٭