دل کو دیوار کریں، صبر سے وحشت کریں ہم
دل کو دیوار کریں، صبر سے وحشت کریں ہم
خاک ہو جائیں جو رسوائی کو شہرت کریں ہم
*
اک قیامت کہ تلی بیٹھی ہے پامالی پر
یہ گزر لے تو بیان ِ قد و قامت کریں ہم
*
حرف تردید سے پڑ سکتے ہیں سو طرح کے پیچ
ایسے سادہ بھی نہیں ہیں کہ وضاحت کریں ہم
*
دل کے ہمراہ گزارے گئے سب عمر کے دن
شام آئی ہے تو کیا ترک ِ محبت کریں ہم
*
اک ہماری بھی امانت ہے تہ خاک یہاں
کیسے ممکن ہے اس شہر سے ہجرت کریں ہم
*
دن نکلنے کو ہے چہروں پہ سجا لیں دنیا
صبح سے پہلے ہر اک خواب کو رخصت کریں
*
شوق ِ آرائش گل کا یہ صلہ ہے کہ صبا
کہتی پھرتی ہے کہ اب اور نہ زحمت کریں ہم
*
عمر بھی دل میں سجائے پھرے اوروں کی شبیہ
کبھی ایسا ہو کہ اپنی بھی زیارت کریں ہم
٭٭٭