مقدر ہو چکا ہے بے در و دیوار رہنا
مقدر ہو چکا ہے بے در و دیوار رہنا
کہیں طے پا رہا ہے شہر کا مسمار رہنا
*
نمود خواب کے اور انہدام خواب کے بیچ
قیامت مرحلہ ہے دل کا ناہموار رہنا
*
دلوں کے درمیاں دوری کے دن ہں اور ہم کو
اسی موسم میں تنہا برسرپیکار رہنا
*
اندھیری رات اور شور سگاں کوئے دشنام
اور ایسے میں کسی آنکھ کا بیدار رہنا
*
تماشا کرنے والے آ رہے ہیں جوک در جوک
گروہ پابجولاں! رقص کو تیار رہنا
*
ہوائے کوئے قاتل بے ادب ہونے لگی ہے
چراغ جادہ صدق و صفا ہشاور رہنا
*
یہ دشواری تو آسانی کا خمیازہ ہے ورنہ
بہت ہی سہل تھا ہم کو بہت دشوار رہنا
*
ادھر کچھ دن سے اس بستی کو راس آنے لگا ہے
ہم آشفتہ سروں کے در پے آزار رہنا
٭٭٭