آخری آدمی کا رجز
مصاحبین شاہ مطنہی ہوئے کہ سرفراز سربریدہ بازوؤں سمیت شہر کی فصیل
*
پر لٹک رہے ہیں
اور ہر طرف سکون ہے
سکون ہی سکون ہے
*
فغان ِ خلق اہل طائفہ کی نذر ہو گئی
متاع صبر وحشت دعا کی نذر ہو گئی
امید اجر بے یقینی جزا کی نذر ہو گئی
*
نہ اعتبار ِ حرف ہے نہ آبروئے خون ہے
سکون ہی سکون ہے
*
مصاحبین شاہ مطمئن ہوئے کے سرفراز سر بریدہ بازوؤں
سمیت شہر کی فصیل پر لٹک رہے ہیں اور ہر طرف سکون ہے
سکون ہی سکون ہے
*
خلیج اقتدار سرکشوں سے پاٹ دی گئی
جو ہاتھ آئی دولت ِ غنیم بانٹ دے گئی
طناب ِ خیمہ لسان و لفظ کاٹ دی گئی
*