ہم نہ ہوئے تو کوئی افق مہتاب نہیں دیکھے گا
ہم نہ ہوئے تو کوئی افق مہتاب نہیں دیکھے گا
ایسی نیند اڑے گی پھر کوئی خواب نہیں دیکھے گا
*
نرمی اور مٹھاس میں ڈوبا یہی مہذب لہجہ
تلخ ہوا تو محفل کے آداب نہیں دیکھے گا
*
پیش لفظ سے اختتام تک پڑھنے والا قاری
جس میں ہم تحریر ہیں بس وہی باب نہیں دیکھے گا
*
لہو رلاتے خاک اڑاتے موسم کی سفاکی
دیکھتے ہیں کب تک یہ شہر گلاب نہیں دیکھے گا
*
بپھرے ہوئے دریا کو ہوا کا ایک اشارہ کافی
کوئی گھر کوئی بھی گھر سیلاب نہیں دیکھے گا
*
بے معنی بے مصرف عمر کی آخری شام کا آنسو
ایک سبب دیکھے گا سب اسباب نہیں دیکھے گا
*
اک ہجرت اور ایک مسلسل دربدری کا قصہ
سب تعبر یں دیکھیں گے کوئی خواب نہیں دیکھے گا
٭٭٭