تیری شوریدہ مزاجی کے سبب تیرے نہیں
تیری شوریدہ مزاجی کے سبب تیرے نہیں
اے مرے شہر ترے لوگ بھی اب تیرے نہیں
*
میں نے ایک اور بھی محفل میں انھیں دیکھا ہے
یہ جو تیرے نظر آتے ہیں یہ سب تیرے نہیں
*
یہ بہ ہر لمحہ نئی دھن پہ تھرکتے ہوے لوگ
کون جانے کہ یہ کب تیرے ہیں کب تیرے نہیں
*
تیرا احسان کہ جانے گئے پہچانے گئے
اب کسی اور کے کیا ہوں گے یہ جب تیرے نہیں
*
در بدر ہوکے بھی جو تیری طرف دیکھتے تھے
وہ ترے خانماں برباد بھی اب تیرے نہیں
*
اب گلہ کیا کہ ہوا ہو گئے سب حلقہ بگوش
میں نہ کہتا تھا کہ یہ اہل طلب تیرے نہیں
*
ہو نہ ہو دل پہ کوئ بوجھ ہے بھائی ورنہ
بات کہنے کے یہ انداز یہ ڈھب تیرے نہیں
٭٭٭