سمجھ رہے ہیں مگر بولنے کا یارا نہیں
سمجھ رہے ہیں مگر بولنے کا یارا نہیں
جو ہم سے مل کے بچھڑ جائے وہ ہمارا نہیں
*
ابھی سے برف اُلجھنے لگی ہے بالوں سے
ابھی تو قرضِ ماہ و سال بھی اُتارا نہیں
*
سمندورں کو بھی حیرت ہوئی کہ ڈوبتے وقت
کسی کو ہم نے مد د کے لیے پکارا نہیں
*
جو ہم نہیں تھے تو پھر کون تھا سرِ بازار
جو کہ رہا تھا کہ بکنا ہمیں گوارا نہیں
*
ہم اہلِ دل ہیں محبت کی نسبتوں کے امیں
ہمارے پاس زمینوں کا گوشوارہ نہیں
٭٭٭