ہو کے دنیا میں بھی دنیا سے رہا اور طرف
ہو کے دنیا میں بھی دنیا سے رہا اور طرف
دل کسی اور طرف دستِ دعا اور طرف
*
اک رجز خوان ہنر کاسہ و کشکول میں طاق
جب صفِ آرا ہوئے لشکر تو ملا اور طرف
*
اے بہ کہ ہر لمحہ نئے وہم میں الجھے ہوئے شخص
میری محفل میں الجھتا ہے تو جا اور طرف
*
اہلِ تشیری و تماشا کے طلسمات کی خیر
چل پڑے شری کے سب شعلہ نوا اور طرف
*
کیا مسافر تھا سفر کرتا رہا اس بستی میں
اور لو دیتے تےل نقشِ کفِ پا اور طرف
*
شاخِ مژگاں سے جو ٹوٹا تھا ستارہ سرِ شام
رات آئ تو وہی پھول کھلا اور طرف
*
نرغۂ ظلم میں دکھ سیھل رہی خلقتِ شرج
اہلِ دنیا نے کیے جشن بپا اور طرف
٭٭٭